چین: کرونا کا پھیلاؤ اور سرمایہ نواز حکمران

دسمبر کے شروع میں، چین کے اندر حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے سخت کرونا لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاجوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا، جن میں سے کئی نے جلد ہی سیاسی نوعیت اختیار کر کے چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی پوری سرمایہ دارانہ حکومت کو للکارنا شروع کیا۔ اگرچہ انفرادی طور پر یہ احتجاج چھوٹے تھے، ریاست واضح طور پر اس سے خوفزدہ تھی کہ کہیں یہ وسیع تر پرتوں کو متحرک نہ کر دیں۔ اب، جبکہ ریاست کریک ڈاؤن کر رہی ہے، وہ ’زیرو کووڈ‘ پالیسی (کرونا متاثرین کی تعداد صفر پر لانے کے لیے کیے جانے والے سخت ترین اقدامات) میں نرمی لانے پر بھی مجبور ہے۔ مگر ایسا کرتے ہوئے، انہیں چینی سرمایہ داری میں مزید عدم استحکام کا سامنا ہے۔

[Source]

ان احتجاجوں کو ’اے 4 پروٹیسٹ‘ کا نام بھی دیا گیا ہے، جن میں مظاہرین اے 4 سائز کا خالی سفید کاغذ استعمال کرتے ہیں، جو اس بات پر طنزیہ احتجاج ہے کہ کسی بھی سیاسی نعرے کو فوری طور پر غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔ اس تحریک میں چین بھر کے بڑے شہروں کے اندر بیک وقت ہونے والے احتجاج ماضی میں کبھی اس طرح سے دیکھنے کو نہیں ملے۔ ریاست کے ظالمانہ اور اکثریتی احمقانہ لاک ڈاؤن اقدامات سے تنگ آ کر ہزاروں لوگوں نے ریاست کے خلاف سڑکوں کا رُخ کیا۔ اس عمل میں دو واقعات ان کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے تھے، ریاست کی پشت پناہی میں انتظامیہ کی جانب سے اجرتوں کی عدم ادائیگی کے خلاف ژینگژو فاکس کان فیکٹری کے محنت کشوں کی دلیرانہ لڑائی، اور اورومچی شہر کے ایک اپارٹمنٹ میں لگنے والی آگ جس کے خلاف شدید غم و غصّے کا اظہار کیا گیا۔

احتجاجوں کا آغاز 19 سے زائد صوبوں کے بڑے شہروں میں ہوا، جن میں بیجنگ جیسا کلیدی شہر اور معاشی مرکز شنگھائی شامل تھا۔ نوجوانوں نے بالخصوص تحریک کے اندر اہم کردار ادا کیا، جہاں ملک بھر کی 79 سے زائد یونیورسٹیوں میں لاک ڈاؤن اور ریاست کی عمومی آمرانہ روش کے خلاف طلبہ احتجاج دیکھنے کو ملے۔ بیرونِ ملک بھی بے شمار احتجاجوں میں طلبہ نے یکجہتی کا اظہار کیا، خاص کر برطانیہ کے اندر لندن میں واقع چینی سفارت خانے کے باہر بڑا مظاہرہ کیا گیا۔

یہ مضمون لکھنے کے وقت، احتجاجوں میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے، جبکہ سڑکوں کے اوپر پولیس کی موجودگی کافی بڑھائی گئی ہے۔

البتہ، بعض انفرادی احتجاج جاری رہے ہیں، بالخصوص 5 دسمبر کو نانجینگ ٹیک یونیورسٹی میں طلبہ کا ایک بڑا اجتماع ہوا۔ یہاں کچھ افراد کا کرونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد جب طلبہ کو پتہ چلا کہ انہیں لاک ڈاؤن میں قید کیا گیا ہے تو انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ہمیں گھر لوٹنے دیا جائے۔ ایک طالب علم نے چیختے ہوئے سکول سیکورٹی کو دھمکی دی کہ: ”اگر ہمیں ہاتھ بھی لگایا تو دوسرا فاکس کان دیکھو گے!“

ریاست اپنے بدنامِ زمانہ ’سوشلسٹ آہنی ہاتھ‘ کا استعمال کرتے ہوئے، یعنی احتجاجوں کے قائدین پر نگرانی بڑھا کر اور ان کی گرفتاریاں کر کے، احتجاجوں کو خاموش کرانے میں اگرچہ کامیاب ہوئی ہے مگر اس کی پریشانی اپنی جگہ برقرار ہے۔ یہ واضح طور پر ایک سنگین صورتحال ہے کہ چینی سماج کی اکثریتی پرتوں کا لاک ڈاؤن کے ان اقدامات کے سبب ناک میں دم ہو گیا ہے جن کا نتیجہ روزگار کھونے، خوراک تک رسائی محدود ہونے، اور روزمرہ کی زندگی نا ممکن بننے کی صورت نکلا ہے۔

چند ہی دنوں میں، ریاست نے ابھی سے نام نہاد زیرو کووڈ پالیسی کی سختی کم کرنے کے آثار دکھانا شروع کیے ہیں، وہ پالیسی جس کے پیچھے شی جن پنگ کا بڑا ہاتھ ہے، جو ریاستی وقار برقرار رکھنے کی خاطر ابھی تک لاک ڈاؤن لگاتا رہا ہے۔

احتجاجوں کے چند دنوں بعد، کئی بڑے شہروں کی مقامی حکومتوں نے اپنا رویہ تبدیل کیا۔ بیجنگ، شنگھائی، گوانگژو، شین زین، چونگ کنگ، ژین گژو اور اورومچی جیسے مرکزی شہروں کے اندر تیزی کے ساتھ اقدامات واپس لیتے ہوئے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے۔ خاص کر پبلک ٹرانسپورٹ اور سہولیات تک رسائی دینے سے پہلے کرونا ٹیسٹ منفی آنے کی تھکا دینے والی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ یہ سارے وہ شہر ہیں جہاں کے احتجاجوں میں شدید تلخی اور نفرت دیکھنے کو ملی تھی۔

7 دسمبر کو مرکزی حکومت نے خود سٹیٹ کونسل کے ’10 نئے اقدامات‘ کے ذریعے عمومی قومی پالیسی میں رد و بدل کی۔ یہ ’زیرو کووڈ‘ پالیسی ترک کرنے کے حوالے سے ایک بہت بڑا قدم تھا، جبکہ بڑے پیمانے پر اقدامات واپس لینے سے کرونا پابندیوں کا مکمل خاتمہ کرنے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے۔

اس دوران، یوں لگتا ہے جیسے ریاست لوگوں کی توجہ ہٹانے کی سر توڑ ناکام کوششیں کر رہی ہے، جو واویلا مچا کر ایک سابقہ قائد جیانگ زیمین کی موت کا ماتم کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ میڈیا کے تمام بڑے ریاستی شعبوں سمیت نجی میڈیا بھی اپنا لوگو بلیک اینڈ وائٹ کر کے ماتم کا اظہار کر رہا ہے، جبکہ تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز پر جیانگ کی یاد میں مضامین شائع اور پروگرامات نشر کیے جا رہے ہیں۔

مسائل کا نیا طوفان

یہ واضح ہے کہ ریاست غیر مطمئن عوام کی خوشنودی کی کوشش میں لاک ڈاؤن اقدامات واپس لے رہی ہے۔ مگر پابندیاں ہٹانے کا عمل عوامی اعتماد بڑھانا تو دور، تیزی سے دیگر سنجیدہ مسائل کو جنم دے گا۔

کئی شہروں کے اندر، ’زیرو کووڈ‘ پالیسی کے خاتمے کا عمل، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، کرونا ٹیسٹ (پی سی آر) کی شدید نفرت انگیز شرائط کا خاتمہ کرنے سے کیا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن اقدامات کے تحت روزانہ کے کرونا ٹیسٹ لازم تھے۔ ہر روز کئی افراد کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا۔ شدید آندھیوں کے دوران بھی اس پالیسی میں کوئی نرمی نہیں لائی گئی!

یہ عوام کے لیے ایک تھکاوٹ بھری آزمائش تھی، مگر یہ کچھ سرمایہ داروں کے لیے منافع بخش کاروبار بھی تھا۔ کرونا ٹیسٹ کو لازمی قرار دینا اور اس کا نفاذ اگرچہ ریاست کرتی ہے، مگر ٹیسٹ کِٹ کی پیداوار اور استعمال نجی طور پر ہوتا ہے۔ چین میں اب یہ ملٹی بلین ڈالر کا کاروبار بن چکا ہے، جہاں وبا کے دوران بعض کمپنیوں کی بڑھوتری میں منافع بخش معاہدوں کے باعث 376 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کاروبار میں بے قاعدگیوں، جھوٹے ٹیسٹ رزلٹ دینے، اور غلطیوں اور بدنظمی کی بہتات ہے، جس کے نتیجے میں کئی افراد کو بلا ضرورت کوارنٹائین کیا جاتا ہے۔

اگرچہ بعض جگہوں پر ٹیسٹ کی شرائط میں نرمی لائی گئی ہے، مگر دیگر کئی سہولیات تک رسائی کے لیے اب بھی ٹیسٹ کرنا لازمی ہے۔ البتہ، کرونا ٹیسٹ اب ریاست کی جانب سے نہیں کیے جا رہے، اور اس لیے لوگوں سے اخراجات خود اٹھانے کی توقع کی جا رہی ہے۔

مگر اس سے اہم بات یہ کہ، تیزی سے پابندیاں ہٹانے کا عمل، جو یقیناً نئے کرونا کیسز کا باعث بنے گا، چینی سماج کے لیے غیر یقینی مستقبل لے کر آئے گا۔ اس پالیسی کو قومی سطح پر اپناتے ہوئے، اس حوالے سے شکوک و شبہات پائے جا رہے ہیں کہ کرونا کی ناگزیر لہروں کو قابو کرنے کے لیے درکار انفراسٹرکچر قومی سطح پر موجود ہے یا نہیں، اور شدید کیسز میں ہسپتال کے داخلوں کا مسئلہ بھی ہے۔

چین میں بالخصوص بڑی عمر کے افراد کو خطرہ درپیش ہے، کیونکہ ریاست جوان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین دے رہی ہے تاکہ انہیں واپس کام پر بھیج کر معیشت کو متحرک اور منافعوں کا بہاؤ جاری رکھ سکے۔ بڑی عمر والوں کو کم پیمانے پر ویکسین مہیا کیے جا رہے ہیں، اور ریاست کی سخت پالیسی کے باوجود ویکسین کے حوالے سے ان کے بیچ عموماً ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔ ابھی تک، 80 عمر سے بڑے افراد میں صرف 40 فیصد نے بوسٹر ٹیکہ لگوایا ہے۔

بڑے پیمانے پر انفیکشنز کا سامنا کرنے کی تیاری میں، ریاست پلیکسوویڈ اور کرونا کے علاج کی دیگر دواؤں کی درآمدات میں اضافہ کر رہی ہے۔ البتہ، چین کی بڑی آبادی کے باعث ناگزیر طور پر ایسے مریضوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوگا جن کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت ہوگی۔ انفراسٹرکچر کے حوالے سے، ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنے والے حالات کو صحت کا موجودہ نظام قابو کر لے گا یا نہیں۔ فی الحال، 1 لاکھ افراد کے لیے آئی سی یو کے بیڈ چار سے کم ہیں۔ کرونا وبا کے شروع میں ریاست کو بڑا غرور تھا کہ اس نے ووہان میں 13 دنوں کے اندر دو ہسپتال تعمیر کیے، مگر معاشی منصوبہ بندی کے بغیر ملک بھر میں اس طرح کے اقدامات کرنا پوری طرح سے ایک الگ معاملہ ہوگا۔

مگر ایک چیز واضح ہے: آئی سی یو کے اخراجات اپنی جگہ برقرار رہیں گے، جو بڑے ہسپتالوں میں فی دن 10 ہزار یوآن (3 لاکھ ساڑھے 23 ہزار پاکستانی روپے) ہے، جو محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی مریضوں کے لیے نا قابلِ برداشت ہوں گے۔ ’زیرو کووڈ‘ پالیسی ایک ہی ملک کے اندر نا ممکن تھی۔ یہ پالیسی یا تو ہر جگہ پر نافذ کرنی ہوگی یا کہیں پر بھی نہیں۔ کرونا جیسی وبائی بیماری کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے، جو سرمایہ داری کے تحت نا ممکن ہے، جہاں سرمایہ داروں کے قومی ٹولے تجارت میں ایک دوسرے سے مقابلہ بازی کرتے ہیں، اور ٹیکنالوجی اور وسائل کی ذخیرہ اندوزی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں ہوتے ہیں۔

اب ایسا لگتا ہے کہ چین کے اندر وائرس کی لہریں باقی دنیا کی طرز پر دیکھنے کو ملیں گی، جہاں حکمران طبقے نے جلد ہی ’ہرڈ ایمیونیٹی‘ کی حکمتِ عملی اپنائی تھی۔ اور ان ممالک کی طرح، انفیکشن کی لہروں سے طبقاتی تضادات، اور سب سے بڑھ کر علاج کی سہولیات تک رسائی، کام کی جگہوں پر حفاظتی اقدامات اور تعلیم میں عدم مساوات شدید بے نقاب ہوگی۔

یہ سب کچھ چینی سماج کے لیے استحکام کی بجائے مزید انتشار کے امکانات کی جانب اشارہ ہے۔ ریاست نے عوامی دباؤ میں آ کر کرونا کو آبادی کے بیچ پھیلنے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر وائرس پھیلنے کی رفتار نئے ڈرامائی موڑ بھی جنم دے سکتی ہے، جس سے ریاست پر پوری طرح دہشت طاری ہو سکتی ہے۔ اگرچہ سٹیٹ کونسل کے ’10 نئے اقدامات‘ نے ظالمانہ ایمرجنسی لاک ڈاؤن پر پابندی لگائی ہے مگر کوئی پتہ نہیں کہ مقامی حکومتیں خود کو گہرے مسائل میں پا کر کیا کریں گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ریاست سخت لاک ڈاؤن کے نتائج نظر انداز کر کے ایک مرتبہ پھر ان کا نفاذ کرے، جس سے لوگوں کا دم مزید گھٹے گا، جس سے ریاست کی ساکھ مزید برباد ہوگی کہ وہ اپنی حاکمیت کے حوالے سے کسی بھی اختلاف یا للکار کو برداشت نہیں کرتی۔ جیسے جیسے ریاست کے بارے میں عدم اعتماد بڑھے گا، عوام کی وسیع تر پرتوں کو سڑکوں پر نکلنے میں شاید زیادہ دیر نہ لگے۔

سرمایہ دارانہ آمریت مردہ باد! مزدور جمہوریت قائم کرو!

سی سی پی حکومت اب آگے کنواں پیچھے کھائی والی کیفیت میں ہے۔ اس کا لاک ڈاؤن کے اوپر انحصار ختم نہیں ہو رہا، مگر تیزی سے پابندیاں ہٹانے کے نتائج کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوگی۔ اس مسئلے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ 20ویں کانگریس کے بعد ہو رہا ہے، جس کے اجلاس میں ریاست نے تمام اختیارات شی جن پنگ کے ہاتھوں میں مرکوز کیے تھے۔ شی کے ہاتھوں میں اختیارات کا بڑے پیمانے پر مجتمع ہونے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اب اس کے لیے دیگر شخصیات کو قربانی کا بکرا بنانا زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ تمام تر ذمہ داری اس پر عائد ہوگی۔

بہرحال، بحران کی وجہ وائرس یا لاک ڈاؤن نہیں ہے۔ اس کی بجائے اس کا منبع چین میں موجود سرمایہ دارانہ معیشت ہے، جس کا سی سی پی دفاع کرتی ہے۔ لاک ڈاؤن کا پہلا اور اولین مقصد منڈی کی معیشت کو متحرک رکھنا تھا جبکہ وبا باقی دنیا میں تباہی پھیلا رہی تھی۔

کاروباروں کو ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیاں دی گئیں جبکہ محنت کش طبقے کو نوکریوں کا خاتمہ اور بھیانک لاک ڈاؤن مار رہا تھا۔ عوامی مفادات اور آزادی پر ہمیشہ نام نہاد ’سوشلسٹ منڈی کی معیشت‘ یعنی کہ سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔

سخت لاک ڈاؤن نے اگرچہ شروع میں مغربی ممالک کی نسبت بہتر نتائج فراہم کیے تھے، سادہ حقیقت یہی ہے کہ ’زیرو کووڈ‘ ایک ملک میں برقرار نہیں رکھا جا سکتا جبکہ وائرس باقی دنیا کو برباد کر رہا ہو۔ مارکس وادیوں نے کئی مرتبہ اس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ سادہ الفاظ میں، سرمایہ داری ایک عالمی نظام ہے، اور چین گہرے طور پر اس کا حصہ ہے۔

ایک حقیقی سوشلسٹ ملک سرمایہ دار طبقے سے چھینے گئے ملکی وسائل کو استعمال کرنے کا اہل ہوتا تاکہ محنت کش طبقے کے پاس اپنے طور پر مناسب اقدامات لینے کا اختیار ہو، اور انہیں اجرتوں کی کٹوتی یا روزمرہ اشیائے ضرورت کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ چین میں کبھی ممکن نہیں تھا، جہاں آمرانہ افسر شاہی نے عوام کو زیادہ وضاحت کے بغیر نافذ کیے گئے اقدامات کی تعمیل کرنے پر مجبور کیا، اور محنت کش طبقے کے مفادات پر ہمیشہ سرمائے کو ترجیح دی۔ ان لاک ڈاؤنز کے تجربے نے کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں کے سامنے چینی سماج کے تضادات واضح کیے ہیں۔

کرونا اقدامات واپس لینے کا حالیہ نیا موڑ ریاست کے ایجنڈے پر نہیں تھا۔ یہ پریشانی کی حالت میں عوامی دباؤ کا ردعمل ہے۔ بلاشبہ یہ آخری دفعہ نہیں ہوگا، اور شاید ریاست کو مخالف سمت میں جانا پڑے۔ یہ دائیں بائیں حرکت عوام کے لیے مزید غیر یقینی حالات کو جنم دے گی، جس سے شعور پر اثرات مرتب ہوں گے، اور یہ غصے کے ان نئے دھماکوں کے لیے مواد فراہم کرے گا جو ایک مرحلے پر جا کر نا گزیر ہیں۔

جو بھی ہو، یہ ایک پختہ حقیقت ہے کہ ریاست کے بارے میں چینی عوام کا موجودہ عدم اعتماد تاریخی بلند ترین سطح پر ہے۔ وہ اس ریاست سے نفرت کرنے میں حق بجانب ہیں جو آمرانہ طور پر سرمائے کے مفادات کا دفاع کرتی ہے۔ واقعات کے تھپیڑوں کے تحت، وہ بالآخر یہ سمجھ لیں گے کہ سرمایہ داری کے ان لا محدود بحرانات میں زندگی گزارنے سے نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ اس ریاست کا تختہ الٹنا اور ایک سوشلسٹ مزدور جمہوریت کا قیام ہے۔