چین: سرمایہ پرست حکمرانوں کی نا اہلی اور کرونا کا پھیلاؤ

7 دسمبر 2022ء کو عجلت میں اپنی ’زیرو کووِڈ‘ پالیسی کو ترک کرتے ہوئے چینی ریاست نے اپنے ’دس نئے اقدامات‘ جاری کیے، جسے وہ ”روک تھام کے درست اقدامات“ کہتی ہے۔ درحقیقت، یہ کرونا وبا پر قابو پانے کے لیے کیے گئے سخت گیر اقدامات کو مکمل طور پر ترک کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ ”چینی کمیونسٹ پارٹی“ کی حکومت کے مطابق، ’دس اقدامات‘ کا مقصد کرونا وائرس میں تبدیلیوں کوصورت حال کے مطابق نشانہ بنانے میں ”سائنسی درستگی“ کو بہتر بنانا ہے۔

[Source]

لیکن حقائق یہ واضح کرتے ہیں کہ ان نئے اقدامات کا ”سائنسی درستگی“ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ مہینے کے آغاز میں شروع میں ہونے والے مظاہروں سے خوفزدہ ریاست کی پچھلے اقدامات سے پسپائی تھی۔ حکومت نے اپنی زیرو کووِڈ پالیسی سے ایسی صورت حال پیدا کی جس سے پالیسی میں تبدیلی بہت مشکل ہو گئی تھی۔ کیونکہ چین کی زیادہ تر آبادی میں قدرتی قوت مدافعت کی کمی ہے، چینی ساختہ ’سائنوواک‘ ویکسین مغرب میں ’ایم آر این اے‘ پر مبنی ویکسین جتنی موثر نہیں ہے، اور چین میں ویکسین لگوانے کی سطح کم ہے، خاص طور پر بزرگوں میں۔ لہٰذا، اچانک لاک ڈاؤن کے خاتمے سے انفیکشنز میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہونا متوقع تھا۔ تحریر لکھتے وقت، وائرس پورے ملک میں پھیل رہا ہے، جس کی وجہ سے بہت زیادہ تعداد میں انفیکشن ہو رہے ہیں اور خاتمے کے بہت کم نشان دکھائی دے رہے ہیں۔ مقامی حکومتیں بتدریج ادویات، ریپڈ ٹیسٹ کٹس اور متعلقہ وبائی مواد تقسیم کر رہی ہیں لیکن عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اب ریاست نے جنوری 2023ء تک تمام وبائی اقدامات ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ناکام سرمایہ دارانہ نظام اور نام نہاد چینی ’کمیونسٹ‘ پارٹی (سی سی پی) کی بیوروکریٹک بدانتظامی ہے جس نے اس بڑھتی ہوئی تباہی میں کردار ادا کیا ہے۔

پالیسی میں یو ٹرن

نومبرمیں ریاست نے شمالی صوبے ہیبی کے صوبائی دارالحکومت شیجیازوانگ (Shijiazhuang) میں اپنی وبائی پالیسیوں میں نرمی کرنے کا تجربہ کیا۔ نتائج سے کوئی بھی مطمئن نہیں تھا۔ ریاست اور عوام دونوں اس تجربے سے جنم لینے والے مختلف اہم مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس کا مایوس کن اختتام ہوا۔ لیکن سرمایہ دارانہ حکومت نے ثابت کیا ہے کہ اس نے شیجیازوانگ سے کچھ نہیں سیکھا۔ اپنے ناکام تجربے کو محض ’سائنسی‘ منصوبہ بندی کی مشق کا بھیس دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد، کرونا پالیسیوں کے خلاف ملک گیراحتجاجوں کی وجہ سے حکومت نے اچانک اپنی لاک ڈاؤن پالیسیوں کو ترک کرتے ہوئے ’دس اقدامات‘ کا اعلان کیا اور، ایک بار پھر ریاست اورعوام کو ضروری اقدامات کی تیاری کے لیے وقت اور وسائل نہیں ملے۔

جیسے ہی ریاست نے نئی پالیسیاں متعارف کروائیں، اچانک ’طبی ماہرین‘ ریاستی پالیسیوں کی حمایت کرنے اور عوام کو دھوکہ دینے کے لیے نمودار ہوئے۔ یہ پیشہ ور جھوٹے، چالباز اور دھوکے باز دلیل دیتے ہیں کہ وائرس کی شدت میں اس حد تک کمی ہو چکی ہے کہ ہمیں فکر کرنا چھوڑ دینا چاہئیے اور اب اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری کو کورونا وائرس بیماری (یا کورونا وائرس نمونیا) نہیں کہنا چاہیے بلکہ ’کورونا بخار‘ کہنا چاہئیے۔ سرکاری محکمہ صحت مسلسل پریس کانفرنسز کرتے ہوئے نئی پالیسیوں کے پیچھے ’سائنس‘ کی وضاحت کرتے رہتے ہیں، اور میڈیا ان کے بیہودہ جھوٹوں کو دہراتا ہے۔ پیغام سادہ ہے: حکومت بہت معقول اور عملی ہے۔ حکومت سب سے بہتر جانتی ہے اور کبھی غلط نہیں ہو سکتی لہٰذا عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

جہاں حکومت اور ان کے ’طبی ماہرین‘ عوام کو تسلی اور دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں، وہیں اب بے خبر ترین افراد بھی یہ کہنے پر مائل ہیں کہ: آخر شی جن پنگ نے کب سے وائرس کو قابو کر لیا ہے؟ نصف سال پہلے، یہی وائرس ایک خوفناک بلا تھا۔ اور آدھے سال بعد ہی اب صرف یہ بے ضرر بخار ہے۔ عوام کو یاد ہے۔ وہ اتنی آسانی سے بیوقوف نہیں بنیں گے۔

ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔

چین میں ایک مقبول انٹرنیٹ فورم ’زیھو‘ پر مشہور چینی انفلوینسرکی ایک پوسٹ میں لکھا تھا: ”جب لاک ڈاؤن میں نرمی آئی تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ہاں، کچھ بھی نہیں۔“ کوئی ہنگامی منصوبہ نہیں تھا۔ انفراسٹرکچرکے عملے کی تیاری کے کوئی اجلاس نہیں ہوئے، قلت سے بچنے کے لیے ادویات کے ذخائر نہیں تھے-لاک ڈاؤن میں نرمی کا پورا عمل ایک مذاق تھا۔

نتیجہ افراتفری کی صورت میں نکلا۔ خوف و ہراس میں طبی سامان کی خریداری شروع ہوئی اور بخار کی ہر قسم کی ادویات ختم ہو گئیں۔ کچھ لوگوں نے روایتی جڑی بوٹیوں والی ادویات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تھرمامیٹر، کرونا ریپیڈ ٹیسٹ کٹس، اور یہاں تک کہ وینٹیلیٹر اور آکسیجن کی شدید قلت تھی۔ اس صورتحال سے خوفزدہ عوام افراتفری اور الجھنوں کا شکار ہیں: انفیکشن سے کیسے نمٹا جائے؟ کون سی دوائی لینی ہے؟ دوائیاں موئثرہیں بھی یا نہیں؟

ہسپتالوں جیسے صحت عامہ کے اداروں کی صورتحال خوفناک ہے۔ مریضوں کے لیے بسترموجود نہیں ہیں اور بزرگوں کو ایڈجسٹ کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہیں۔ فیور کلینکس کے تقریباً تمام فرنٹ لائن ڈاکٹرز متاثر ہو چکے ہیں، ان میں سے اکثر کام کرنے سے قاصر ہیں، اور ڈاکٹروں کے بیماری کے دوران کام کرنے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ ہسپتالوں میں کرونا کے علاج کی مختلف ادویات کی کمی ہے۔ کچھ لوگ صحت یاب ہو چکے ہیں لیکن بھیڑ کی وجہ سے پی سی آر ٹیسٹ مراکز نے ابھی تک انہیں ٹیسٹ کے نتائج فراہم نہیں کیے۔

جب کہ حکومت کو ہلاکتوں کی اطلاع دینے میں شرم آتی ہے، عوام دیکھ سکتے ہیں کہ تدفین کے انتظامات کرنے والوں کا کاروبار کتنا اچھا چل رہا ہے: مرنے والوں کو فوری طور پر ٹھکانے نہیں لگایا جا سکتا، جبکہ جنازہ گاہوں کے باہر قطاریں لگی ہوئی ہیں، لوگ شکایت کررہے ہیں کہ مرنے والوں کے لیے فریزر نہیں ہیں۔

اگرچہ دیہی علاقوں میں شہروں کے مقابلے میں انفیکشن کی شدت کم ہے، لیکن سماجی نتائج کم سنگین نہیں ہیں۔ دیہی علاقوں میں طبی وسائل بہت کم تقسیم کیے گئے ہیں، اور عوام خاموشی سے مشکلات کا شکار ہیں۔ ادویات، علاج اور بستروں کی کمی اور لمبی قطاریں دیہی علاقوں میں عام مناظر ہیں۔ سب سے زیادہ مشکلات بزرگوں کو درپیش ہیں جن میں سے کئی بے بسی سے موت کا انتظار کررہے ہیں۔ کرونا وبا کو محدود کرنے کی کچھ مقامی کوششوں کے باوجود وہاں قتل عام ہو رہا ہے۔

عوامی جانیں قیمتی ہیں؟

”کمیونسٹ“ پارٹی کا اعلان ہے کہ وہ ”عوام اور انکی زندگیوں کو اولیت“ دیتی ہے۔ لیکن اوپر بیان کیے گئے مناظر پر غور کریں تو یہ ایک کھوکھلا اعلان ہے۔ خلاصہ یہ کہ سی سی پی اپنی پارٹی اورسرمایہ دارانہ مارکیٹ کے مفادات کو اولیت دیتی ہے۔ وبا کے شروعات میں، حکومت نے اپنی زیرو کووِڈ پالیسی کی تاثیر کے بارے میں شیخی ماری، کہ اس نے مغرب کے مقابلے میں اموات کو بہت کم رکھا اور (سب سے اہم بات) چین کی معیشت کو ابتدائی جھٹکے سے نسبتاً تیزی سے بحال ہونے میں مدد کی۔

لیکن حالات اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ چین کا عالمی منڈی سے خود کو غیر معینہ مدت کے لیے الگ کرنا ناممکن تھا۔ زیرو کووِڈ نے معاشی دباؤ کو شدید کیا اور بڑے پیمانے پر تجارت میں خلل پڑا۔ دریں اثنا سرمایہ دارانہ بنیادوں پر سخت کووِڈ بچاؤ اقدامات کا ریاستی انتظام لاکھوں لوگوں کے لیے مصائب، غربت اور مشکلات کا باعث بنا، جو بالآخر ناقابل برداشت ہو گیا۔ یہی حالات حالیہ احتجاجی تحریک کی بنیاد بنے، جس نے حالات قابو سے باہر ہونے کا خطرہ مول لینے کے بجائے حکومت کو پالیسی میں تبدیلی پر مجبور کر دیا۔

سی سی پی نے اپنی کمزوری اور عوام سے خوف کو ظاہر کیا ہے، اور اپنی پوزیشن کو لاحق کسی بھی خطرے کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ’دس نئے اقدامات‘ کے متعارف ہونے سے پہلے، اومیکرون کے نقصانات اوروبا کے معروضی تجزیے کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات تک رسائی محدود کی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ سنسر کے ذریعے کرونا وبا کے بارے میں مضامین پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

سنسر صرف اس خبر کی اجازت دیتا ہے جو ’کمیونسٹ‘ پارٹی کی سرمایہ دارانہ حکومت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ مثال کے طور پر، ریاستی نشریاتی اداروں نے ماسک نہ پہننے کی وجہ سے قطر ورلڈ کپ میں اسٹینڈز میں ہجوم کے قریبی شاٹس دکھانے سے انکار کر دیا۔ اب پچھلے چند ہفتوں میں عوام نے حکومت کو کارروائی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ چینی عوام نے اپنی مدد آپ کے لیے بے ساختہ خود کو منظم کیا ہے، اور مختلف باہمی امدادی گروپس اور کمیونٹیز قائم کی ہیں۔ طاقتور ریاست اچانک غائب ہو گئی ہے۔ حکام کے پاس پی سی آر ٹیسٹنگ کی جامع صلاحیتیں تھیں، لیکن اب وہ معمولی بخار کی دوائیں اور ریپیڈ ٹیسٹ بھی فراہم نہیں کر سکتے ہیں (فی الحال، انہیں خریدنے کے لیے آن لائن بکنگ کرنے کی ضرورت ہے)۔

جب عوام نے خود دوائیوں کی نئی فہرست جمع کی جو کرونا کے خلاف موثر ہیں، تو آخر کار ریاست نے اپنی سرکاری ادویات کی فہرست جاری کرنا شروع کردی (بیجنگ کے مقامی حکام نے ’دس نئے اقدامات‘ کے پانچ دن بعد اپنی فہرست جاری کی؛ اس وقت پورے ملک میں صرف بیجنگ کی فہرست دستیاب تھی)۔ جب لوگوں نے اندھا دھند دوائیں لینا شروع کیں جس سے وہ ہسپتال تک پہنچ گئے، تو ریاست نے آخرکار دوا کے صحیح استعمال کے بارے میں رہنمائی دینا شروع کی۔ ایک بار پھر، ریاست قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے اور سٹاک کے خاتمے کے بعد سستی سے مسائل پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت کے تاخیری اقدامات واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ ’عوامی زندگی کو اولیت دینے‘ کی ان کی تمام باتیں حقیقت میں کتنی کھوکھلی ہیں۔ سی سی پی نے واضح کیا ہے کہ وہ مارکیٹ کا اعتماد بڑھانے کے لیے معیشت کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ مقامی حکومتوں نے فوری طور پر اپنے کاروبار کے لیے بیرون ملک صارفین کی تلاش شروع کر دی ہے اور اپنے دائرہ اختیار میں کاروباری اداروں کو دوبارہ کام شروع کرنے میں مدد کرنے پر دباؤ ڈالا ہے۔ بحران کے اس وقت میں، محنت کش عوام کی علاج اور سہولیات صحت تک رسائی غیر یقینی ہے اور وہ لمحہ بہ لمحہ دلدل میں دھنس رہے ہیں۔ سی سی پی ”عوام کو اولیت“ دینے کے اپنے وعدوں سے مکر گئی ہے۔ حقیقت میں یہ سرمائے کو اولیت دیتی ہے۔

درد کی تقسیم

اس تباہی میں درد اور تکالیف کی تقسیم میں کوئی مساوات نہیں ہے۔ ایک سرکاری صحافی پروموشنل ویڈیوز شوٹ کرنے کے لیے موبائل کیبن ہسپتال میں آسانی سے ایک بستر حاصل کر سکتا ہے، جب کہ لاکھوں محنت کشوں کو ہسپتالوں میں بستر نہیں مل سکتے جن کی انہیں اشد ضرورت ہے۔ سرمایہ دار اور پارٹی کے عہدیدار بہترین طبی وسائل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔باقی سب کسی بھی قسم کے طبی اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ چین میں طبقاتی معاشرہ ویسا ہی ہے جیسا کہ مارکس نے بیان کیا ہے۔

محنت کش عوام کی ایک بڑی اکثریت اذیت میں جی رہی ہے جس کی کوئی انتہا نظر نہیں آتی، جبکہ سرمایہ داروں کی ایک بہت چھوٹی اقلیت محنت کشوں کے استحصال کو شدید کرنے اور مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ حاصل کرنے کے لیے وقت کے خلاف مسلسل دوڑ میں ہے۔ محنت کش عوام جو سب اس وقت سہہ رہے ہیں، سرمایہ داری کے تحت اپنے تمام مصائب کے ساتھ ’معمول‘ پر لوٹنے کے بعد بھی یاد رکھیں گے۔ نومبر اور دسمبر میں ہونے والے بے مثال حکومت مخالف مظاہروں سے عوام کو اپنی پوشیدہ طاقت کا بھی اندازہ ہو گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا موجودہ بحران شدت اختیار کرتا رہے گا، اورمحنت کشوں کا طبقاتی شعور اور ان کی جدوجہد وقت کے ساتھ ابھرتی رہے گی۔جب چینی محنت کش طبقہ واقعی ایک طبقے کے طور پرمتحد ہو کر آگے بڑھنا شروع کر دے گا تو پوری دنیا کانپ اٹھے گی۔